دل ان کی محبت کا جو دیوانہ لگے ہے
یہ ایسی حقیقت ہے جو افسانہ لگے ہے
عالم نہ کوئی پوچھے مری وحشت دل کا
گھر اپنے اگر جاؤں تو ویرانہ لگے ہے
بڑھتے نہیں کیوں میرے قدم آگے کی جانب
نزدیک ہی شاید در جانانہ لگے ہے
ویسے تو کسی نے مجھے ایسا نہیں جانا
دیوانہ کہا تم نے تو دیوانہ لگے ہے
روداد الم ان سے جو قاصد نے بیاں کی
فرمانے لگے ہنس کے یہ افسانہ لگے ہے
میں نے تو بنائی تھی فقط آپ کی تصویر
دل میرا مگر آج صنم خانہ لگے ہے
اب اپنا بھی بیگانہ نظر آتا ہے وصفیؔ
بیگانہ تو بیگانہ ہے بیگانہ لگے ہے
غزل
دل ان کی محبت کا جو دیوانہ لگے ہے
عبدالرحمان خان واصفی بہرائچی