دل ٹوٹ چکا تار نظر ٹوٹ رہا ہے
قسطوں میں مسافر کا سفر ٹوٹ رہا ہے
ہر روز بدلتا ہے نیا رنگ زمانہ
ہر شخص بہ انداز دگر ٹوٹ رہا ہے
تو غور سے دیکھے تو یہ معلوم ہو تجھ کو
جو کچھ ہے ترے پیش نظر ٹوٹ رہا ہے
کیا جانئے کیوں لوگ تشدد پہ اتر آئے
دستار بچاتے ہیں تو سر ٹوٹ رہا ہے
منزل ہے کہ اوجھل ہے نگاہوں سے ابھی تک
رستہ ہے کہ تا حد نظر ٹوٹ رہا ہے
جو وار بھی کرتا ہے وہ کاری نہیں ہوتا
قاتل کا مرے زعم ہنر ٹوٹ رہا ہے
کچھ ایسے شفیقؔ اب کے ہوئے وقت سے پامال
پرواز کا ضامن تھا جو پر ٹوٹ رہا ہے
غزل
دل ٹوٹ چکا تار نظر ٹوٹ رہا ہے
شفیق دہلوی