دل تجھے ناز ہے جس شخص کی دل داری پر
دیکھ اب وہ بھی اتر آیا اداکاری پر
میں نے دشمن کو جگایا تو بہت تھا لیکن
احتجاجاً نہیں جاگا مری بیداری پر
آدمی آدمی کو کھائے چلا جاتا ہے
کچھ تو تحقیق کرو اس نئی بیماری پر
کبھی اس جرم پہ سر کاٹ دئے جاتے تھے
اب تو انعام دیا جاتا ہے غداری پر
تیری قربت کا نشہ ٹوٹ رہا ہے مجھ میں
اس قدر سہل نہ ہو تو مری دشواری پر
مجھ میں یوں تازہ ملاقات کے موسم جاگے
آئنہ ہنسنے لگا ہے مری تیاری پر
کوئی دیکھے بھرے بازار کی ویرانی کو
کچھ نہ کچھ مفت ہے ہر شے کی خریداری پر
بس یہی وقت ہے سچ منہ سے نکل جانے دو
لوگ اتر آئے ہیں ظالم کی طرف داری پر
غزل
دل تجھے ناز ہے جس شخص کی دل داری پر
سلیم کوثر