EN हिंदी
دل تو حاضر ہے اگر کیجئے پھر ناز سے رمز | شیح شیری
dil to hazir hai agar kijiye phir naz se ramz

غزل

دل تو حاضر ہے اگر کیجئے پھر ناز سے رمز

عبدالرحمان احسان دہلوی

;

دل تو حاضر ہے اگر کیجئے پھر ناز سے رمز
ہیں ترے ناز کے صدقے اسی انداز سے رمز

رمز و ایما و کنائے تجھے سب یاد ہیں یار
ہم تو بھولے ہیں غم غمزۂ غماز سے رمز

اپنی نافہمی سے میں اور نہ کچھ کر بیٹھوں
اس طرح سے تمہیں جائز نہیں اعجاز سے رمز

دل کو تو سہج میں لیوے گا یہ میں جان چکا
یہی نکلی ہیں تری سہج کی آواز سے رمز

ہم جئیں یا کہ مریں کچھ نہیں غم شوق سے آپ
مسند ناز پہ فرمائیے اعزاز سے رمز

میں اسی دم تری تروار سے کاٹوں گا گلا
تیغ دکھلا کے میاں عاشق جاں باز سے رمز

باز جدم سے در عدل شہ عالم ہے
بچۂ قاز بھی کرتا ہے یہاں باز سے رمز

کیا تعجب ہے اگر مردۂ صد سالہ جئیں
کم نہیں میرے مسیحا کے بھی اعجاز سے رمز

ہے تجھے خانہ خرابی ہی اگر مد نظر
کیجیو اے فلک اس خانہ بر انداز سے رمز

رمز احساںؔ سے ہے یعنی کہ غزل اور بھی پڑھ
سیکھ جائے کوئی اس چشم فسوں ساز سے رمز