دل تو برساتا ہے ہر روز ہی غم کے ساون
پھر بھی بجھتے نہیں یادوں کے سلگتے ایندھن
زندگی خوابوں کی چلمن میں یوں اٹھلاتی ہے
جیسے سکھیوں میں گھری ہو کوئی شرمیلی دلہن
اب تو ہر روز ہی اک آنچ نئی اٹھتی ہے
یہ مرا جسم نہ بن جائے دہکتا مدفن
اس سے پہلے کہ صبا آنکھ مچولی کھیلے
بند کر دو در امید کا ہر ہر روزن
شب کے آئینے میں تصویر تمنا دیکھو
عکس دکھلائے گا کیا تم کو سحر کا درپن
اس قدر بھی تو ستاؤ نہ بہکتے خوابو
دل تعبیر کی رک جائے لرزتی دھڑکن
ہے وہ وحشت کہ ہوا بھی نہیں چلتی اطہرؔ
بن گیا کتنا بھیانک یہ وفا کا آنگن

غزل
دل تو برساتا ہے ہر روز ہی غم کے ساون
اطہر عزیز