دل تھا کہ غم جاں تھا
میں خود سے پشیماں تھا
میں نے اسے چاہا تو
وہ مجھ سے گریزاں تھا
فطرت کے اشارے پر
جو نقش تھا رقصاں تھا
حالات کے ہاتھوں میں
کیوں میرا گریباں تھا
کل میرے تصرف میں
اک عالم امکاں تھا
میں خود سے چھپا لیکن
اس شخص پہ عریاں تھا
کیوں شہر نگاراں میں
آغاز پریشاں تھا
غزل
دل تھا کہ غم جاں تھا
آغاز برنی