EN हिंदी
دل تھا بے کیف محبت کی خطا سے پہلے | شیح شیری
dil tha be-kaif mohabbat ki KHata se pahle

غزل

دل تھا بے کیف محبت کی خطا سے پہلے

دانش فراہی

;

دل تھا بے کیف محبت کی خطا سے پہلے
لطف ایسا نہیں آیا تھا سزا سے پہلے

ہائے انداز محبت بھی عجب تھا ان کا
کر رہے تھے وہ جفا مجھ پہ وفا سے پہلے

کس قدر تیری دعاؤں میں اثر تھا اے دوست
ہو گیا ہوں میں صحت یاب دوا سے پہلے

کیا بتاؤں تجھے ہمدم کہ تھا ابتر کتنا
حال میرا ترے دامن کی ہوا سے پہلے

بات یہ میری ذرا غور سے سن لو دانشؔ
کام کرنا نہ کوئی نام خدا سے پہلے