دل تیرے تغافل سے خبردار نہ ہو جائے
یہ فتنہ کہیں خواب سے بیدار نہ ہو جائے
مدت سے یہی پردہ یہی پردہ دری ہے
ہو کوئی تو پردہ سے نمودار نہ ہو جائے
مجھ سے مرا افسانۂ ماضی نہ سنو تم
افسانہ نیا پھر کوئی تیار نہ ہو جائے
اے مستئ الفت سبق کفر دیئے جا
جب تک مجھے ہر چیز سے انکار نہ ہو جائے
ہونا ہے جو ہستی کو مری خاک ہی سیمابؔ
پہلے ہی سے کیوں خاک در یار نہ ہو جائے
غزل
دل تیرے تغافل سے خبردار نہ ہو جائے
سیماب اکبرآبادی