EN हिंदी
دل تیرے تغافل سے خبردار نہ ہو جائے | شیح شیری
dil tere taghaful se KHabar-dar na ho jae

غزل

دل تیرے تغافل سے خبردار نہ ہو جائے

سیماب اکبرآبادی

;

دل تیرے تغافل سے خبردار نہ ہو جائے
یہ فتنہ کہیں خواب سے بیدار نہ ہو جائے

مدت سے یہی پردہ یہی پردہ دری ہے
ہو کوئی تو پردہ سے نمودار نہ ہو جائے

مجھ سے مرا افسانۂ ماضی نہ سنو تم
افسانہ نیا پھر کوئی تیار نہ ہو جائے

اے مستئ الفت سبق کفر دیئے جا
جب تک مجھے ہر چیز سے انکار نہ ہو جائے

ہونا ہے جو ہستی کو مری خاک ہی سیمابؔ
پہلے ہی سے کیوں خاک در یار نہ ہو جائے