دل سی ویرانی میں سایہ کوئی مہمان تو ہے
اپنے خوابوں سے ملاقات کا امکان تو ہے
کچھ نہ کچھ نذر تو کرنا ہے ترے جلوے کو
اور دولت نہ سہی کوئی دل و جان تو ہے
کیا ملے گا ہمیں اب اس کی پشیمانی سے
بے وفائی پہ کوئی اپنی پشیمان تو ہے
یوں نہ ہو خود سے نبھانا تمہیں مشکل ہو جائے
ہم کو نظروں سے گرانا بہت آسان تو ہے
قافلے والوں کو گمراہی کا احساس ہوا
کم سے کم اب کسی انجام کا امکان تو ہے

غزل
دل سی ویرانی میں سایہ کوئی مہمان تو ہے
مشتاق نقوی