EN हिंदी
دل سی ویرانی میں سایہ کوئی مہمان تو ہے | شیح شیری
dil si virani mein saya koi mehman to hai

غزل

دل سی ویرانی میں سایہ کوئی مہمان تو ہے

مشتاق نقوی

;

دل سی ویرانی میں سایہ کوئی مہمان تو ہے
اپنے خوابوں سے ملاقات کا امکان تو ہے

کچھ نہ کچھ نذر تو کرنا ہے ترے جلوے کو
اور دولت نہ سہی کوئی دل و جان تو ہے

کیا ملے گا ہمیں اب اس کی پشیمانی سے
بے وفائی پہ کوئی اپنی پشیمان تو ہے

یوں نہ ہو خود سے نبھانا تمہیں مشکل ہو جائے
ہم کو نظروں سے گرانا بہت آسان تو ہے

قافلے والوں کو گمراہی کا احساس ہوا
کم سے کم اب کسی انجام کا امکان تو ہے