دل سی چیز کے گاہک ہوں گے دو یا ایک ہزار کے بیچ
انشاؔ جی کیا مال لیے بیٹھے ہو تم بازار کے بیچ
پینا پلانا عین گنہ ہے جی کا لگانا عین ہوس
آپ کی باتیں سب سچی ہیں لیکن بھری بہار کے بیچ
اے سخیو اے خوش نظرو یک گونہ کرم خیرات کرو
نعرہ زناں کچھ لوگ پھریں ہیں صبح سے شہر نگار کے بیچ
خار و خس و خاشاک تو جانیں ایک تجھی کو خبر نہ ملے
اے گل خوبی ہم تو عبث بدنام ہوئے گلزار کے بیچ
منت قاصد کون اٹھائے شکوہ دریاں کون کرے
نامۂ شوق غزل کی صورت چھپنے کو دو اخبار کے بیچ
غزل
دل سی چیز کے گاہک ہوں گے دو یا ایک ہزار کے بیچ
ابن انشا