دل سے طاعت تری نہیں ہوتی
ہم سے اب بندگی نہیں ہوتی
ایسی کچھ بے دلی سی غالبؔ ہے
کہ تری یاد بھی نہیں ہوتی
دل نہ جب تک ہو ایک شعلۂ عشق
زندگی زندگی نہیں ہوتی
حیف وہ جس سے شدت غم میں
خواہش مرگ بھی نہیں ہوتی
راس آتی نہیں کوئی تدبیر
یاس جاوید بھی نہیں ہوتی
ضبط غم بھی محال ہے ہم سے
اور فریاد بھی نہیں ہوتی
دل پرستی خدا پرستی ہے
خود پرستی خودی نہیں ہوتی
الحذر تشنگی عشق جگرؔ
ہائے تسکین ہی نہیں ہوتی
غزل
دل سے طاعت تری نہیں ہوتی
جگر بریلوی