EN हिंदी
دل سے طاعت تری نہیں ہوتی | شیح شیری
dil se taat teri nahin hoti

غزل

دل سے طاعت تری نہیں ہوتی

جگر بریلوی

;

دل سے طاعت تری نہیں ہوتی
ہم سے اب بندگی نہیں ہوتی

ایسی کچھ بے دلی سی غالبؔ ہے
کہ تری یاد بھی نہیں ہوتی

دل نہ جب تک ہو ایک شعلۂ عشق
زندگی زندگی نہیں ہوتی

حیف وہ جس سے شدت غم میں
خواہش مرگ بھی نہیں ہوتی

راس آتی نہیں کوئی تدبیر
یاس جاوید بھی نہیں ہوتی

ضبط غم بھی محال ہے ہم سے
اور فریاد بھی نہیں ہوتی

دل پرستی خدا پرستی ہے
خود پرستی خودی نہیں ہوتی

الحذر تشنگی عشق جگرؔ
ہائے تسکین ہی نہیں ہوتی