EN हिंदी
دل سے پوچھو کیا ہوا تھا اور کیوں خاموش تھا | شیح شیری
dil se puchho kya hua tha aur kyun KHamosh tha

غزل

دل سے پوچھو کیا ہوا تھا اور کیوں خاموش تھا

پنڈت جگموہن ناتھ رینا شوق

;

دل سے پوچھو کیا ہوا تھا اور کیوں خاموش تھا
آنکھ محو دید تھی اتنا مجھے بس ہوش تھا

وہ بھی کیا تاثیر تھی جس نے ہلائے سب کے دل
کیا بتاؤں وہ مرا ہی نالۂ پر جوش تھا

محفل ساقی میں تھا کچھ اور ہی مستوں کا رنگ
کوئی ساغر ڈھونڈھتا تھا اور کوئی بے ہوش تھا

کیا عجب ہے جائزہ لے مے پرستوں کا کوئی
یاد رکھنا ساقیا مجھ سا بھی اک مے نوش تھا

کیا سمجھ سکتا تھا کوئی تیرے دیوانے کی چپ
جب کسی نے اس سے کچھ پوچھا تو بس خاموش تھا

بے خودی سے نشۂ جام خودی اترا تو پھر
ایک ہی ساغر ملا ایسا کہ میں مدہوش تھا

اک ہمیں کو ساقیا پوچھا نہ تو نے دور میں
ورنہ مے خانہ میں تیرے شور نوشا نوش تھا

کس قدر تھا اشتیاق منزل مقصود اسے
مرنے والے کا جنازہ آج دوشا دوش تھا

زندگی بھر کے گناہوں سے یہ تھی شرم اے اجل
تارک ہستی یہاں سے جب چلا روپوش تھا

غنچے کیوں خاموش آئے گلشن ہستی میں شوقؔ
موسم گل سے مگر خوف خزاں ہم دوش تھا