EN हिंदी
دل سے نکال یاس کہ زندہ ہوں میں ابھی | شیح شیری
dil se nikal yas ki zinda hun main abhi

غزل

دل سے نکال یاس کہ زندہ ہوں میں ابھی

جہانگیر نایاب

;

دل سے نکال یاس کہ زندہ ہوں میں ابھی
ہوتا ہے کیوں اداس کہ زندہ ہوں میں ابھی

مایوسیوں کی قید سے خود کو نکال کر
آ جاؤ میرے پاس کہ زندہ ہوں میں ابھی

آ کر کبھی تو دید سے سیراب کر مجھے
مرتی نہیں ہے پیاس کہ زندہ ہوں میں ابھی

مہر و وفا خلوص و محبت گداز دل
سب کچھ ہے میرے پاس کہ زندہ ہوں میں ابھی

لوٹیں گے تیرے آتے ہی پھر دن بہار کے
رہتی ہے دل میں آس کہ زندہ ہوں میں

نایابؔ شاخ چشم میں کھلتے ہیں اب بھی خواب
سچ ہے ترا قیاس کہ زندہ ہوں میں ابھی