EN हिंदी
دل سے کیا پوچھتا ہے زلف گرہ گیر سے پوچھ | شیح شیری
dil se kya puchhta hai zulf-e-girah-gir se puchh

غزل

دل سے کیا پوچھتا ہے زلف گرہ گیر سے پوچھ

امداد امام اثرؔ

;

دل سے کیا پوچھتا ہے زلف گرہ گیر سے پوچھ
اپنے دیوانے کا احوال تو زنجیر سے پوچھ

میری جاں بازی کے جوہر نہیں روشن تجھ پر
کچھ کھلے ہیں تری شمشیر پہ شمشیر سے پوچھ

پرسش حال کو جاتی ہے کہاں اے لیلیٰ
قیس کی شکل ہے کیا قیس کی تصویر سے پوچھ

واقف راز نہیں پیر مغاں سا کوئی
ہے دلا پوچھنا جو کچھ تجھے اس پیر سے پوچھ

واقف لذت آزار نہیں ہر کوئی
کیا مزا غم میں ہے یہ عاشق دلگیر سے پوچھ

گرمیٔ شوق نہیں ہے تو دہن میں اے شمع
کس لیے تیری زباں لیتا ہے گلگیر سے پوچھ

الٹی کیوں پڑتی ہے تدبیر یہ ہم کیا جانیں
کون الٹ دیتا ہے اس راز کو تدبیر سے پوچھ

مجھ سے اے داور محشر ہے یہ پرسش کیسی
پوچھنا ہے تجھے جو کچھ مری تقدیر سے پوچھ

یوں تو استاد فن شعر بہت سے گزرے
کس کو کہتے ہیں غزل گوئی اثرؔ میرؔ سے پوچھ