EN हिंदी
دل سے بے سود اور جاں سے خراب | شیح شیری
dil se be-sud aur jaan se KHarab

غزل

دل سے بے سود اور جاں سے خراب

بکل دیو

;

دل سے بے سود اور جاں سے خراب
ہو رہا ہوں کہاں کہاں سے خراب

غم کی دہلیز ہے بھلی کتنی
کوئی اٹھتا نہیں یہاں سے خراب

میں مرا عکس اور آئینہ
یہ نظارہ تھا درمیاں سے خراب

خود کو تعمیر کرتے ظالم میں
ہو گیا ہوں یہاں وہاں سے خراب

روشنی اک حقیر تارے کی
آ گئی ہو کے کہکشاں سے خراب

زیر لب رکھ چھپا کے نام اس کا
لفظ ہوتے ہیں کچھ بیاں سے خراب

ایک مدت سے ہوں میں منکر عشق
آ مجھے کر دے اپنی ہاں سے خراب

رنگ نکھرے ہیں پھر وہیں پہ بکلؔ
میری تصویر تھی جہاں سے خراب