دل سلامت اگر اپنا ہے تو دل دار بہت
ہے یہ وہ جنس کہ جس کے ہیں خریدار بہت
ایک میں ہی ترے کوچے میں نہیں ہوں بیتاب
سر پٹکتے ہیں خبر لے پس دیوار بہت
دیکھیے کس کے لگے ہاتھ ترا گوہر وصل
اس تمنا میں تو پھرتے ہیں طلب گار بہت
کہیں نرگس کو مگر تو نے دکھائیں آنکھیں
نہیں بچتے نظر آتے ہیں یہ بیمار بہت
کیا کروں کس سے کہوں حال کدھر کو جاؤں
تنگ آیا ہوں ترے ہاتھ سے دل دار بہت
اپنے عاشق سے کیا پوچھو تو کیسے یہ سلوک
اور بھی شہر میں ہیں تجھ سے طرحدار بہت
ترے آتے تو کوئی پھول نہ ہوگا سرسبز
کیا ہوا باغ میں گو پھولے تھے گل زار بہت
ایک دن تجھ کو دکھاؤں گا میں ان خوباں کو
دعویٔ یوسفی کرتے تو ہیں اظہار بہت
جرم بوسہ پہ جو بیدارؔ کو مارا مارا
نہ کرو جانے دو اس بات پہ تکرار بہت
غزل
دل سلامت اگر اپنا ہے تو دل دار بہت
میر محمدی بیدار