دل سخت نڈھال ہو گیا ہے
سانس آنا محال ہو گیا ہے
تو تیرا وصال تیری فرقت
سب خواب و خیال ہو گیا ہے
وہ شوق کہ تھا متاع ہستی
اب جی کا وبال ہو گیا ہے
کیا ربط ہے میرا روز و شب سے
ہر لمحہ سوال ہو گیا ہے
جو درد بھلا دیا تھا تو نے
وہ درد بحال ہو گیا ہے
اب چارہ گری سے فائدہ کیا
آغاز مآل ہو گیا ہے
تیار رکھو چراغ اپنے
سورج کو زوال ہو گیا ہے
اے دل مری جان کچھ تو بتلا
یہ کیا ترا حال ہو گیا ہے
لاہور کہ اہل دل کی جاں تھا
کوفے کی مثال ہو گیا ہے
اس عالم بے کسی میں شہرتؔ
جیتا ہوں کمال ہو گیا ہے
غزل
دل سخت نڈھال ہو گیا ہے
شہرت بخاری