دل پہ تھی ثبت جو تحریر مٹائی نہ گئی
کس کی تصویر تھی تصویر بھلائی نہ گئی
آ کے اس بن میں ملے پھر نہ کبھی دو پریمی
گھاس پگڈنڈیوں سے جھیل سے کائی نہ گئی
پیار کی آنچ سے جل اٹھا کنول کانت بدن
اس سے صورت مری نینوں میں چھپائی نہ گئی
مجھ میں رچ بس کے بھی تو مجھ سے الگ خود سے الگ
تیرے جیون کی امٹ روپ اکائی نہ گئی
ٹوٹے کتبوں کے سوا مل نہ سکا کچھ بھی مگر
اس مٹے شہر کے ٹیلوں کی کھدائی نہ گئی
رات بھر جل پہ گریں جلتے ستاروں کی لویں
مجھ سے چادر کوئی ندی پہ بچھائی نہ گئی
اس کے درشن سے ملی مجھ کو خود اپنی پہچان
شکل اک روح تلک صورت آئینہ گئی
غزل
دل پہ تھی ثبت جو تحریر مٹائی نہ گئی
ناصر شہزاد