دل پہ گر چوٹ نہ لگتی تو نہ عشرت تھی نہ غم
ساز کے پردے سے باہر نہ نکلتا سرگم
ہم کو بخشا ہے زمانے نے جہاں بھر کا الم
تاب خورشید سے چھلنی ہوا قلب شبنم
اب یہ حالت ہے کہ وہ خود ہوئے مائل بہ کرم
آج یاد آئے بہت ہم کو زمانے کے ستم
خاک پروانہ دم صبح اڑی جاتی ہے
کھل نہ جائے کہیں محفل کے چراغوں کا بھرم
جیسے اوشا کی لرزتی ہوئی پہلی آہٹ
یوں تبسم ترے ہونٹوں پہ ہے درہم برہم
خالق جود و سخا یہ تو بڑی بات نہ تھی
تیری دنیا میں تبسم کو ترستے رہے ہم

غزل
دل پہ گر چوٹ نہ لگتی تو نہ عشرت تھی نہ غم
سحاب قزلباش