EN हिंदी
دل پریشاں ہے نہ جانے کس لیے | شیح شیری
dil pareshan hai na jaane kis liye

غزل

دل پریشاں ہے نہ جانے کس لیے

وامق جونپوری

;

دل پریشاں ہے نہ جانے کس لیے
حشر ساماں ہے نہ جانے کس لیے

پر سکوں گہرائیوں میں ضبط کی
شور طوفاں ہے نہ جانے کس لیے

لاکھ آباد تمنا ہو کے دل
پھر بھی ویراں ہے نہ جانے کس لیے

میری بربادی پہ میرا ہر نفس
زہر خنداں ہے نہ جانے کس لیے

تشنۂ ہمت جو تھا ذوق فنا
آج آساں ہے نہ جانے کس لیے

خالی از علت نہیں ان کا کرم
مجھ پہ احساں ہے نہ جانے کس لیے

دیکھیے گرتی ہے یہ بجلی کہاں
وہ پشیماں ہے نہ جانے کس لیے

نوع انساں فصل آزادی میں بھی
پا بہ جولاں ہے نہ جانے کس لیے