دل پر ستم ہزار کرے بے وفا کے لب
برچھی کبھی کٹار لگے دل ربا کے لب
گفت و شنید میں بڑے بے باک ہیں مگر
دیکھا مجھے تو کھل نہ سکے لب کشا کے لب
گفتار و آن بان کا عالم نہ پوچھئے
خوش رنگ و جاں فزا ہیں مرے ہم نوا کے لب
ہو جائے پل میں خاک وہ جس کو یہ چوم لیں
جلتے ہوئے شرارے ہیں جان ادا کے لب
بوسہ لیا تو حسن نے شرما کے یوں کہا
روشن کئے ہیں آپ نے مہر و وفا کے لب
معصومیت تو دیکھیے بعد شب زفاف
معشوق شکوہ سنج ہوا ہے دکھا کے لب
باغوں سے ہم جو گزرے تو پھولوں نے دی صدا
کتنے حسیں ہیں شادؔ تری دل ربا کے لب

غزل
دل پر ستم ہزار کرے بے وفا کے لب
شمشاد شاد