دل پر رکھو نگاہ جگر پر نظر کرو
مقدور ہو تو ذات میں اپنی سفر کرو
ہنگام خیر مقدم صبح نشاط ہے
پروانہ وار شام سے رقص شرر کرو
زنجیر توڑنا بھی بڑا کام تھا مگر
فرصت میں ہو تو زینت دیوار و در کرو
مایوس کن ہے عالم امکاں ابھی تو کیا
دنیائے ممکنات پہ اپنی نظر کرو
جو غم بھی دے حیات خوشی سے قبول ہو
اتنا تو اہتمام غم معتبر کرو
اپنوں کو تو نباہنے والے ہزار ہیں
انسان ہو تو دل میں عدو کے بھی گھر کرو
جاتا نہیں یہ تیر کسی حال میں خطا
ہر مرحلہ حیات کا الفت سے سر کرو
سب لٹ رہے ہیں بر سر بازار ان دنوں
کس سے کہیں کہ قدر متاع ہنر کرو
اک رہ گزار منزل مستی ہے مے کدہ
ہر رند کو خوشی سے شریک سفر کرو
اے دلؔ بہت خراب ہیں حالات شہر کے
یاں جس کسی سے بات کرو مختصر کرو
غزل
دل پر رکھو نگاہ جگر پر نظر کرو
دل ایوبی