دل پر کسی کی بات کا ایسا اثر نہ تھا
پہلے میں اس طرح سے کبھی در بدر نہ تھا
چاروں طرف تھے دھوپ کے جنگل ہرے بھرے
صحرا میں کوئی میرے علاوہ شجر نہ تھا
تارے بھی شب کی جھیل میں غرقاب ہو گئے
میری اداسیوں کا کوئی ہم سفر نہ تھا
فرقت کی آنچ تھی نہ تری یاد کی تپش
دل سرد پڑ رہا تھا کہیں اک شرر نہ تھا
کل شب نہ جانے کون سے غم تھے اپھان پر
اشکوں سے اس قدر میں کبھی تر بہ تر نہ تھا
غزل
دل پر کسی کی بات کا ایسا اثر نہ تھا
آلوک مشرا