EN हिंदी
دل پر کسی کی بات کا ایسا اثر نہ تھا | شیح شیری
dil par kisi ki baat ka aisa asar na tha

غزل

دل پر کسی کی بات کا ایسا اثر نہ تھا

آلوک مشرا

;

دل پر کسی کی بات کا ایسا اثر نہ تھا
پہلے میں اس طرح سے کبھی در بدر نہ تھا

چاروں طرف تھے دھوپ کے جنگل ہرے بھرے
صحرا میں کوئی میرے علاوہ شجر نہ تھا

تارے بھی شب کی جھیل میں غرقاب ہو گئے
میری اداسیوں کا کوئی ہم سفر نہ تھا

فرقت کی آنچ تھی نہ تری یاد کی تپش
دل سرد پڑ رہا تھا کہیں اک شرر نہ تھا

کل شب نہ جانے کون سے غم تھے اپھان پر
اشکوں سے اس قدر میں کبھی تر بہ تر نہ تھا