EN हिंदी
دل پر گہرا نقش ہے ساتھی لاکھ تری دانائی کا | شیح شیری
dil par gahra naqsh hai sathi lakh teri danai ka

غزل

دل پر گہرا نقش ہے ساتھی لاکھ تری دانائی کا

عرفانہ عزیز

;

دل پر گہرا نقش ہے ساتھی لاکھ تری دانائی کا
سات سمندر بھی تو نہ پائیں راز مری گہرائی کا

چشمۂ خوں میں ڈوب گئی بارات سہانے تاروں کی
بوجھل پلکوں پر گہنا یا چاند مری تنہائی کا

جھوم رہے ہیں کالے بادل درس کی پیاسی آنکھوں میں
کاجل بن کر پھیل گیا ہے داغ مری رسوائی کا

کتنا ہے آنند ترے اس دھیمے دھیمے لہجے میں
تیرے دھیرج سے نکھرا ہے رنگ مری رعنائی کا

میرے دل سے پوچھے کوئی قدر ابھرتے سورج کی
میری آنکھ سے دیکھے کوئی روپ مرے سودائی کا

صندل جیسی رنگت پر قربان سنہری دھوپ کروں
روشن ماتھے پر میں واروں سارا حسن خدائی کا

میرا بکھرا بکھرا تن من سمٹ گیا کسی چاہت سے
جان گئی ہوں بھید میں تیری باہوں کی گیرائی کا