دل و نظر کو لہو میں ڈبونا آتا ہے
نہ اب ہنسی ہمیں آئے نہ رونا آتا ہے
ہوا کے ہاتھ چراغوں سے کھیلتے ہیں یوں ہی
کہ ہاتھ بچوں کے جیسے کھلونا آتا ہے
ہم اہل زر کے دروں پر قدم نہیں رکھتے
گدائے خاک ہیں مٹی پہ سونا آتا ہے
خمار در بدری چین سے نہ رہنے دے
جو خواب آتا ہے اکثر سلونا آتا ہے
غزل کے شعر ہیں مفرد مگر وہ شاعر ہے
جسے سب ایک لڑی میں پرونا آتا ہے
غزل
دل و نظر کو لہو میں ڈبونا آتا ہے
اسعد بدایونی