دل و دماغ میں احساس غم ابھار دیا
یہ کس نے آج مجھے مژدۂ بہار دیا
ترے جلو میں بڑھی ہے چمن کی شادابی
گلوں کا رنگ ترے حسن نے نکھار دیا
ذرا لبوں کے تبسم سے بزم گرمائیں
ہمیں تو آپ کی آنکھوں کی چپ نے مار دیا
وہ بار بار مجھے مہرباں نظر آئے
مجھے فریب نگاہوں نے بار بار دیا
تمہی کہو تمہیں کس کی نگاہ لے ڈوبی
مجھے تو خیر مری سادگی نے مار دیا
عجیب بات ہے دل ڈوب ڈوب جاتا ہے
عجیب رات ہے بجھتا ہے بار بار دیا
ہمیں وہ صاحب آلام دہر میں شہزادؔ
ذرا ہنسے تو زمانے کا غم نکھار دیا
غزل
دل و دماغ میں احساس غم ابھار دیا
شہزاد احمد