دل و دیدہ پر کیا اجارہ ہمارا
نہ صحرا ہمارا نہ دریا ہمارا
فلک بھی جو چاہے تو اچھے نہ ہوں گے
ہمارا عدو ہے مسیحا ہمارا
گریبان وحشت نے پھاڑا تو کیا غم
خدا رکھنے والا ہے پردہ ہمارا
محبت نبھے بت کہ ہو خانۂ دل
ہمارا تمہارا تمہارا ہمارا
ہم اے رشکؔ مٹتے رہے آبرو پر
رہا نقش بر آب نقشہ ہمارا
غزل
دل و دیدہ پر کیا اجارہ ہمارا
میر علی اوسط رشک