دل نے میری نہیں سنی توبہ
کیا عجب ہے یہ بے دلی توبہ
میں نے خود کو نڈھال کر ڈالا
خوش نہ آئی یہ عاشقی توبہ
قتل کرتے ہیں آدمیت کا
ایسے ہوتے ہیں آدمی توبہ
وہ جو رہتی تھی خاندانوں میں
اب شرافت بھی مر گئی توبہ
ایک دریا کو پی لیا ہم نے
پھر بھی باقی ہے تشنگی توبہ
بے خودی تو ذرا غنیمت تھی
جان لیوا ہے آگہی توبہ
جیتے رہنا ترے تصور میں
زندگی ہے کہ خودکشی توبہ
دور ہنگامۂ جہاں سے قمرؔ
کیسے گزرے گی زندگی توبہ

غزل
دل نے میری نہیں سنی توبہ
قمر عباس قمر