EN हिंदी
دل نہ دیوانہ ہو یہ اس کو گوارا بھی نہیں | شیح شیری
dil na diwana ho ye usko gawara bhi nahin

غزل

دل نہ دیوانہ ہو یہ اس کو گوارا بھی نہیں

جگر بریلوی

;

دل نہ دیوانہ ہو یہ اس کو گوارا بھی نہیں
چاک دامان و گریباں ہوں یہ ایما بھی نہیں

ہم لئے جائیں گے کچھ اس کا بھروسہ بھی نہیں
جان دے دیں یہ محبت کا تقاضا بھی نہیں

بے نیاز آپ سے ہو جائیں یہ ہوتا بھی نہیں
دل ہی جب دیکھتے ہیں کوئی تمنا بھی نہیں

جان بے تاب سی رہتی ہے کہ ہو جائے نثار
آنکھ بھر کر ابھی ہم نے اسے دیکھا بھی نہیں

زخم بڑھتا بھی نہیں فیصلہ جس سے ہو جائے
تیر وہ دل میں لگا ہے کہ نکلتا بھی نہیں

بے حجابی بھی نہیں وہ کہ جو ہوش اڑ جائیں
ہوش رہ جائیں ٹھکانے ہی در پردہ بھی نہیں

چین پڑتا ہی نہیں ہے کسی کروٹ ہم کو
خار سینہ میں چھپا ہوں کوئی ایسا بھی نہیں

پھر بھی دل ہے کہ اسی پر ہوئے جاتا ہے نثار
آنکھ اٹھا کر کبھی جس نے ہمیں دیکھا بھی نہیں

ذرے ذرے پہ بہار آ گئی دل میں بھی بہار
جذبۂ شوق ہمارا ابھی بھڑکا بھی نہیں

پاؤں رکھتے بھی نہیں آپ بڑھے جاتے ہیں
ہم کو اس کوچہ کا سودا ہو تو سودا بھی نہیں

لطف ہوتا تو یہی تھا کہ نہ ہوتے برباد
ہم جو برباد ہوئے تو کوئی شکوہ بھی نہیں

شکوۂ جور تو کرتے ہیں مگر سچ تو یہ ہے
لطف ہم پر ہو جگرؔ ہم نے یہ چاہا بھی نہیں