دل مٹے پیار کی اپیلوں پر
تہمتیں لگ گئیں قبیلوں پر
قافلوں کی کتھا کتابوں میں
فاصلوں کی صدا فصیلوں پر
بھیج سکھیوں کے ہاتھ مت سندیس
یوں بھروسہ نہ کر وکیلوں پر
سیب چہکار جنگلی چڑیاں
رات وادی میں چاند جھیلوں پر
اور جی کو پیا ملن کے جتن
اور پریتم کا گاؤں میلوں پر
کھیلنا چن کے سیپیاں سکے
بھیگنا بارشوں میں ٹیلوں پر
من کی رسوائیاں سبیلوں سے
تن کی تنہائیاں دلیلوں پر
جھولیں ندیاں انہیں نواحوں میں
پھولیں صدیاں انہیں فصیلوں پر
دل کے سمبندھ دل کی گرہوں سے
اون سیلوں میں گوٹ ریلوں پر
غزل
دل مٹے پیار کی اپیلوں پر
ناصر شہزاد