دل مرا تیر ستم گر کا نشانہ ہو گیا
آفت جاں میرے حق میں دل لگانا ہو گیا
ہو گیا لاغر جو اس لیلیٰ ادا کے عشق میں
مثل مجنوں حال میرا بھی فسانہ ہو گیا
خاکساری نے دکھایا بعد مردن بھی عروج
آسماں تربت پر میرے شامیانہ ہو گیا
خواب غفلت سے ذرا دیکھو تو کب چونکے ہیں ہم
قافلہ ملک عدم کو جب روانہ ہو گیا
فصل گل میں بھی رہائی کی نہ کچھ صورت ہوئی
قید میں صیاد مجھ کو اک زمانہ ہو گیا
دل جلایا صورت پروانہ جب سے عشق میں
فرض تب سے شمع پر آنسو بہانہ ہو گیا
آج تک اے دل جواب خط نہ بھیجا یار نے
نامہ بر کو بھی گئے کتنا زمانہ ہو گیا
پاس رسوائی سے دیکھو پاس آ سکتے نہیں
رات آئی نیند کا تم کو بہانہ ہو گیا
ہو پریشانی سر مو بھی نہ زلف یار کو
اس لیے میرا دل صدچاک شانہ ہو گیا
بعد مردن کون آتا ہے خبر کو اے رساؔ
ختم بس کنج لحد تک دوستانہ ہو گیا
غزل
دل مرا تیر ستم گر کا نشانہ ہو گیا
بھارتیندو ہریش چندر