دل مرا خوگر آلام ہوا جاتا ہے
اب ستم بھی ترا انعام ہوا جاتا ہے
ضبط غم موت کا پیغام ہوا جاتا ہے
دل کی باتوں میں مرا کام ہوا جاتا ہے
نسبت خاص تو ہے ظلم پہ یوں شاد تھے ہم
یہ بھی انداز ترا عام ہوا جاتا ہے
تیری مخمور نگاہوں کے تصدق میں کوئی
واقف راز مے و جام ہوا جاتا ہے
ترک الفت سے جنوں مجھ کو ہوا یوں ہی سہی
حسن کیوں لرزہ بر اندام ہوا جاتا ہے
دل جو تھا ساغر صہبائے سکوں اے نخشبؔ
مرکز گردش ایام ہوا جاتا ہے
غزل
دل مرا خوگر آلام ہوا جاتا ہے
نخشب جارچوی