دل مرا دیکھ دیکھ جلتا ہے
شمع کا کس پہ دل پگھلتا ہے
ہم نشیں ذکر یار کر کہ کچھ آج
اس حکایت سے جی بہلتا ہے
دل مژہ تک پہنچ چکا جوں اشک
اب سنبھالے سے کب سنبھلتا ہے
ساقیا دور کیا کرے ہے تمام
آپ ہی اب یہ دور چلتا ہے
گندمی رنگ جو ہے دنیا میں
میری چھاتی پہ مونگ دلتا ہے
ہے تواضع ضرور دولت کو
ہو ہے خم جو نہال پھلتا ہے
اپنے عاشق کی سوخت پر پیارے
کبھو کچھ دل ترا بھی جلتا ہے
دیکھ کیسا پتنگ کی خاطر
شعلۂ شمع ہاتھ ملتا ہے
آج قائمؔ کے شعر ہم نے سنے
ہاں اک انداز تو نکلتا ہے
غزل
دل مرا دیکھ دیکھ جلتا ہے
قائم چاندپوری