دل میں یہ ایک ڈر ہے برابر بنا ہوا
مٹی میں مل نہ جاے کہیں گھر بنا ہوا
اک لفظ بے وفا کہا اس نے پھر اس کے بعد
میں اس کو دیکھتا رہا پتھر بنا ہوا
جب آنسوؤں میں بہہ گئے یادوں کے سارے نقش
آنکھوں میں کیسے رہ گیا منظر بنا ہوا
لہرو! بتاؤ تم نے اسے کیوں مٹا دیا
خوابوں کا اک محل تھا یہاں پر بنا ہوا
وو کیا تھا اور تم نے اسے کیا بنا دیا
اترا رہا ہے قطرہ سمندر بنا ہوا
غزل
دل میں یہ ایک ڈر ہے برابر بنا ہوا
گووند گلشن