دل میں وہ شور نہ آنکھوں میں وہ نم رہتا ہے
اب تپ ہجر توقع سے بھی کم رہتا ہے
کبھی شعلے سے لپکتے تھے مرے سینے میں
اب کسی وقت دھواں سا کوئی دم رہتا ہے
کیا خدا جانے مرے دل کو ہوا تیرے بعد
نہ خوشی اس میں ٹھہرتی ہے نہ غم رہتا ہے
رشتۂ تار تمنا نہیں ٹوٹا اب تک
اب بھی آنکھوں میں تری زلف کا خم رہتا ہے
چھوڑ جاتی ہے ہر اک رت کوئی خوشبو کوئی رنگ
نہ ستم رہتا ہے باقی نہ کرم رہتا ہے
غزل
دل میں وہ شور نہ آنکھوں میں وہ نم رہتا ہے
احمد مشتاق