EN हिंदी
دل میں وہ شور نہ آنکھوں میں وہ نم رہتا ہے | شیح شیری
dil mein wo shor na aankhon mein wo nam rahta hai

غزل

دل میں وہ شور نہ آنکھوں میں وہ نم رہتا ہے

احمد مشتاق

;

دل میں وہ شور نہ آنکھوں میں وہ نم رہتا ہے
اب تپ ہجر توقع سے بھی کم رہتا ہے

کبھی شعلے سے لپکتے تھے مرے سینے میں
اب کسی وقت دھواں سا کوئی دم رہتا ہے

کیا خدا جانے مرے دل کو ہوا تیرے بعد
نہ خوشی اس میں ٹھہرتی ہے نہ غم رہتا ہے

رشتۂ تار تمنا نہیں ٹوٹا اب تک
اب بھی آنکھوں میں تری زلف کا خم رہتا ہے

چھوڑ جاتی ہے ہر اک رت کوئی خوشبو کوئی رنگ
نہ ستم رہتا ہے باقی نہ کرم رہتا ہے