دل میں امنگ اور ارادہ کوئی تو ہو
بے کیف زندگی میں تماشا کوئی تو ہو
یہ کیا کہ دفن ہو گئے چپ چاپ قبر میں
مرنے کے بعد موت کا جلسہ کوئی تو ہو
کوئی تو نام لے کے پکارے ہمیں یہاں
اس بھیڑ میں ہمارا شناسا کوئی تو ہو
ملتی نہیں ہے خاک کہیں سر پہ ڈالنے
دریا بہت سے دیکھے ہیں صحرا کوئی تو ہو
آنکھوں میں نور ہے نہ حلاوت زبان میں
احباب اتنے سارے ہیں میٹھا کوئی تو ہو
باتوں سے عقل و فہم کی تنگ آ چکا ہوں میں
دانش کدہ میں ایک دوانہ کوئی تو ہو
یہ سچ ہے میں ہوں قید خیالوں میں خواب میں
جینے کے واسطے مرے دنیا کوئی تو ہو
مر کر دوام پاؤں یہ امید تو نہیں
میری کہانی بعد میں کہتا کوئی تو ہو
غزل
دل میں امنگ اور ارادہ کوئی تو ہو
خلیل مامون