EN हिंदी
دل میں امنگ اور ارادہ کوئی تو ہو | شیح شیری
dil mein umang aur irada koi to ho

غزل

دل میں امنگ اور ارادہ کوئی تو ہو

خلیل مامون

;

دل میں امنگ اور ارادہ کوئی تو ہو
بے کیف زندگی میں تماشا کوئی تو ہو

یہ کیا کہ دفن ہو گئے چپ چاپ قبر میں
مرنے کے بعد موت کا جلسہ کوئی تو ہو

کوئی تو نام لے کے پکارے ہمیں یہاں
اس بھیڑ میں ہمارا شناسا کوئی تو ہو

ملتی نہیں ہے خاک کہیں سر پہ ڈالنے
دریا بہت سے دیکھے ہیں صحرا کوئی تو ہو

آنکھوں میں نور ہے نہ حلاوت زبان میں
احباب اتنے سارے ہیں میٹھا کوئی تو ہو

باتوں سے عقل و فہم کی تنگ آ چکا ہوں میں
دانش کدہ میں ایک دوانہ کوئی تو ہو

یہ سچ ہے میں ہوں قید خیالوں میں خواب میں
جینے کے واسطے مرے دنیا کوئی تو ہو

مر کر دوام پاؤں یہ امید تو نہیں
میری کہانی بعد میں کہتا کوئی تو ہو