دل میں تجھ کو شمار کر لوں میں
ہو اجازت تو پیار کر لوں میں
اس خزاں کو سمیٹ لو تم تو
موسم خوش گوار کر لوں میں
عشق اگر جرم ہے تو جرم صنم
بے سبب بے شمار کر لوں میں
تم نے وعدہ کیا ہے آنے کا
دو گھڑی انتظار کر لوں میں
ساری دنیا کو جیت لوں پل میں
تجھ پہ گر افتخار کر لوں میں
ہاتھ حاصل سے پھر ملاؤں گا
پہلے دریا تو پار کر لوں میں
کیا ملاقات پھر کبھی ہوگی
یا اسے یادگار کر لوں میں

غزل
دل میں تجھ کو شمار کر لوں میں
فیض جونپوری