EN हिंदी
دل میں ترے اے نگار کیا ہے | شیح شیری
dil mein tere ai nigar kya hai

غزل

دل میں ترے اے نگار کیا ہے

آغا اکبرآبادی

;

دل میں ترے اے نگار کیا ہے
ہوتا نہیں ہمکنار کیا ہے

آیا جو دم وہ ہے غنیمت
اس زیست کا اعتبار کیا ہے

ہیں سیب سے بھی وہ چھاتیاں سخت
آگے ان کے انار کیا ہے

دنیا کے یہ سب ڈھکوسلے ہیں
تربت کیسی مزار کیا ہے

طاؤس سے چھیڑ چھاڑ کیسی
ہاں اے دل داغدار کیا ہے

جو جو وہ رنج دیں اٹھاؤ
جب دل ہی دیا تو عار کیا ہے

میں چاہتا ہوں اسے نہ چاہوں
دل پر مرا اختیار کیا ہے

مژگاں کا ہے مرے دل میں کھٹکا
اے خوشبوئے نوک خار کیا ہے

مٹی مری خاک میں ملائی
مجھ سے ان کو غبار کیا ہے

دوڑوں تو مجھے صبا نہ پائے
پیدل کیسا سوار کیا ہے

بوسہ کی طلب کہ وصل کا ذکر
فرمائیے ناگوار کیا ہے

ہے کیا آغاؔ تڑپ رہا ہے
کیوں کہتے ہو بار بار کیا ہے