دل میں تیرے خیال کی خوشبو
ہجر میں ہے وصال کی خوشبو
دل کے جذبے جوان رکھتی ہے
تیرے حسن و جمال کی خوشبو
کاش تیرے جواب سے آئے
میرے ہر اک سوال کی خوشبو
کاش تجھ کو بھی ہو کبھی محسوس
میرے نا گفتہ حال کی خوشبو
مجھ کو اپنے زوال میں سے بھی
آ رہی ہے کمال کی خوشبو
ہم فقیروں سے دور رہتی ہے
حشمت و جاہ و مال کی خوشبو
پھول سے آ رہی ہے جو سب کو
اصل میں ہے نہال کی خوشبو
ایک پودے کے پھول ہیں لیکن
ہے جدا ڈال ڈال کی خوشبو
ہے منورؔ تمہارے ہونٹوں میں
اک پری رخ کے خال کی خوشبو
غزل
دل میں تیرے خیال کی خوشبو
منور ہاشمی