EN हिंदी
دل میں سو آرمان رکھتا ہوں | شیح شیری
dil mein sau aarman rakhta hun

غزل

دل میں سو آرمان رکھتا ہوں

میر اثر

;

دل میں سو آرمان رکھتا ہوں
پیارے آخر میں جان رکھتا ہوں

واہ ری عقل تجھ سے دشمن سے
دوستی کا گمان رکھتا ہوں

صبر چھٹ دل سب اور باتوں میں
قابل امتحان رکھتا ہوں

آہ تیرے بھی دھیان میں کچھ ہے
کس قدر تیرا دھیان رکھتا ہوں

تجھ سے ہر بار مل کے میں بے صبر
نہ ملوں پھر یہ ٹھان رکھتا ہوں

صرف میں تو اثرؔ بسان جرس
آہ و نالہ بیان رکھتا ہوں