دل میں رکھتا ہے نہ پلکوں پہ بٹھاتا ہے مجھے
پھر بھی اک شخص میں کیا کیا نظر آتا ہے مجھے
رات کا وقت ہے سورج ہے مرا راہنما
دیر سے دور سے یہ کون بلاتا ہے مجھے
میری ان آنکھوں کو خوابوں سے پشیمانی ہے
نیند کے نام سے جو ہول سا آتا ہے مجھے
تیرا منکر نہیں اے وقت مگر دیکھنا ہے
بچھڑے لوگوں سے کہاں کیسے ملاتا ہے مجھے
قصۂ درد میں یہ بات کہاں سے آئی
میں بہت ہنستا ہوں جب کوئی سناتا ہے مجھے
غزل
دل میں رکھتا ہے نہ پلکوں پہ بٹھاتا ہے مجھے
شہریار