دل میں رہنا ہے پریشان خیالوں کا ہجوم
اور آنکھوں میں قیامت کا سماں رہتا ہے
عشق کے راز کو جتنا میں نہاں رکھتا ہوں
خامشی سے مری اتنا ہی عیاں رہتا ہے
روتا رہتا ہوں کسی غم زدہ کے رونے پر
اور دل مرکز آلام جہاں رہتا ہے
رفعت فکر ہے حاصل مجھے الفت کے طفیل
جو نہ یہ ہو تو کہاں حسن بیاں رہتا ہے
لالہ کاری کا سلیقہ بھی نگہ کو آیا
آنسوؤں کی جگہ اب خون رواں رہتا ہے
کشتیٔ زیست ہے گرداب بلا میں صائبؔ
آج کل نام خدا ورد زباں رہتا ہے
غزل
دل میں رہنا ہے پریشان خیالوں کا ہجوم (ردیف .. ے)
صائب عاصمی