EN हिंदी
دل میں پوشیدہ تپ عشق بتاں رکھتے ہیں | شیح شیری
dil mein poshida tap-e-ishq-e-butan rakhte hain

غزل

دل میں پوشیدہ تپ عشق بتاں رکھتے ہیں

امام بخش ناسخ

;

دل میں پوشیدہ تپ عشق بتاں رکھتے ہیں
آگ ہم سنگ کی مانند نہاں رکھتے ہیں

تازگی ہے سخن کہنہ میں یہ بعد وفات
لوگ اکثر مرے جینے کا گماں رکھتے ہیں

بھا گئی کون سی وہ بات بتوں کی ورنہ
نہ کمر رکھتے ہیں کافر نہ دہاں رکھتے ہیں

مثل پروانہ نہیں کچھ زر و مال اپنے پاس
ہم فقط تم پہ فدا کرنے کو جاں رکھتے ہیں

محفل یار میں کچھ بات نہ نکلی منہ سے
کہنے کو شمع کی مانند زباں رکھتے ہیں

ہو گیا زرد پڑی جس کی حسینوں پہ نظر
یہ عجب گل ہیں کہ تاثیر خزاں رکھتے ہیں

عوض ملک جہاں ملک سخن ہے ناسخؔ
گو نہیں حکم رواں طبع رواں رکھتے ہیں