EN हिंदी
دل میں کیا اس کو ملا جان سے ہم دیکھتے ہیں | شیح شیری
dil mein kya usko mila jaan se hum dekhte hain

غزل

دل میں کیا اس کو ملا جان سے ہم دیکھتے ہیں

نظام رامپوری

;

دل میں کیا اس کو ملا جان سے ہم دیکھتے ہیں
بلکہ جاں ہے وہی جب دھیان سے ہم دیکھتے ہیں

چپکے بیٹھے ہوئے حیران سے ہم دیکھتے ہیں
تم تو دیکھو تمہیں کس شان سے ہم دیکھتے ہیں

دل نکل جاتا ہے بے ساختہ اس دم اپنا
در میں جس دم تجھے دالان سے ہم دیکھتے ہیں

کہتے ہیں ایک تمہیں تو نہیں ہم پر مرتے
سیکڑوں جاتے ہوئے جان سے ہم دیکھتے ہیں

واں سے مایوس چلے تو ہیں نہ پوچھو پھر کچھ
پیچھے پھر پھر کے کس ارمان سے ہم دیکھتے ہیں

کیا گلہ آپ کا جو ہم کو دکھائے قسمت
آج کچھ اور ہی سامان سے ہم دیکھتے ہیں

کچھ رکا سا جو انہیں دیکھتے ہیں محفل میں
منہ کو ایک ایک کے حیران سے ہم دیکھتے ہیں

اللہ اللہ رے اے بت تری افزائش حسن
تجھ کو ہر لحظہ نئی آن سے ہم دیکھتے ہیں

ہائے قسمت کہ عدو کہنے کو اپنا مطلب
منہ لگاتے ہیں ترے کان سے، ہم دیکھتے ہیں

کبھی جانے کا ارادہ جو وہ کرتے ہیں نظامؔ
ہائے اس وقت کس ارمان سے ہم دیکھتے ہیں