دل میں کیا کیا ہوس دید بڑھائی نہ گئی
روبرو ان کے مگر آنکھ اٹھائی نہ گئی
ہم رضا شیوہ ہیں تاویل ستم خود کر لیں
کیا ہوا ان سے اگر بات بنائی نہ گئی
یہ بھی آداب محبت نے گوارا نہ کیا
ان کی تصویر بھی آنکھوں سے لگائی نہ گئی
آہ وہ آنکھ جو ہر سمت رہی صاعقہ پاش
وہ جو مجھ سے کسی عنوان ملائی نہ گئی
ہم سے پوچھا نہ گیا نام و نشاں بھی ان کا
جستجو کی کوئی تمہید اٹھائی نہ گئی
دل کو تھا حوصلۂ عرض تمنا سو انہیں
سرگزشت شب ہجراں بھی سنائی نہ گئی
غم دوری نے کشاکش تو بہت کی لیکن
یاد ان کی دل حسرتؔ سے بھلائی نہ گئی
غزل
دل میں کیا کیا ہوس دید بڑھائی نہ گئی
حسرتؔ موہانی