دل میں کسی خلش کا گزر چاہتا ہوں میں
جیسی بھی ہو بس ایک نظر چاہتا ہوں میں
خم ہو کے پھر نہ اٹھے وہ سر چاہتا ہوں میں
اٹھ کر جو خم نہ ہو وہ نظر چاہتا ہوں میں
ہوتے ہی تذکرہ کوئی آ جائے روبرو
اتنا بلند ذوق نظر چاہتا ہوں میں
میرا سکون شوق ہے سب کچھ مرے لیے
نالوں کو بے نیاز اثر چاہتا ہوں میں
کیا پوچھتے ہو مقصد اظہار آرزو
شرح وفا پہ نقد و نظر چاہتا ہوں میں
پیہم غم فراق سے گھبرا گیا ہے دل
کچھ امتیاز شام و سحر چاہتا ہوں میں
جی چاہتا ہے آگ لگا دوں نقاب میں
جلووں سے انتقام نظر چاہتا ہوں میں
محتاج راہبر ہوں جہاں خضر تک شکیلؔ
ایسی بھی کوئی راہ گزر چاہتا ہوں میں
غزل
دل میں کسی خلش کا گزر چاہتا ہوں میں
شکیل بدایونی