دل میں خوں اور آنکھ میں پانی بہت
ایک تھوڑی سی پریشانی بہت
چپ رہیں تو دل سراپا اضطراب
بات کرنے میں پشیمانی بہت
دیکھے بھالے راستے غم کے تمام
دل کی گلیاں جانی پہچانی بہت
اس کے جیسے ہوں گے لیکن وہ کہاں
نقش اول ایک اور ثانی بہت
ہم کہاں ہوتے تھے خود کو دستیاب
کھل رہی ہے اب یہ ارزانی بہت
کس طرح رکھتے ہم آخر جاں عزیز
دل کیا کرتا تھا من مانی بہت
اس سے کیا بے قدردانی کا گلا
ہم نے قدر اپنی کہاں جانی بہت
خود اسے شبنمؔ بناتے ہیں محال
دیکھتے ہیں جس میں آسانی بہت
غزل
دل میں خوں اور آنکھ میں پانی بہت
شبنم شکیل