دل میں خوشبو سی اتر جاتی ہے سینے میں نور سا ڈھل جاتا ہے
خواب اک دیکھ رہا ہوتا ہوں پھر یہ منظر بھی بدل جاتا ہے
چاہتا ہوں کہ میں اٹھ کر دیکھوں چھت سے آکاش کا منظر دیکھوں
ابھی چھت تک ہی پہنچتی ہے آنکھ پاؤں زینے سے پھسل جاتا ہے
خواب کی گم شدہ تعبیر ہوں میں اک عجب ضبط کی تصویر ہوں میں
پھر بھی ان برف سی آنکھوں میں کبھی کوئی غم ہے کہ پگھل جاتا ہے
اک دھواں جو نہ بکھرنے دے مجھے خاک میں بھی نہ اترنے دے مجھے
جب سیاہی کی طرف بڑھتا ہوں اک دیا سا کہیں جل جاتا ہے
راہ چلتا ہوں ارادوں کے ساتھ شوق کے ساتھ مرادوں کے ساتھ
پاؤں ہوتے ہیں قریب منزل وقت ہاتھوں سے نکل جاتا ہے
غزل
دل میں خوشبو سی اتر جاتی ہے سینے میں نور سا ڈھل جاتا ہے
راجیندر منچندا بانی