دل میں جنہیں اتارتے دل سے وہی اتر گئے
جسم کو چومتے رہے روح پہ وار کر گئے
پھر سر شاخ آرزو کھل کے مہک اٹھی کلی
درد کی فصل ہو چکی داغ کے دن گزر گئے
سارے ملامتوں کے تیر جن کا ہدف بنے تھے ہم
اپنے لیے وہ تیر بھی کام دعا کا کر گئے
آج تو تیری یاد بھی مرہم دل نہ ہو سکی
زخم ضرور دب گئے داغ مگر ابھر گئے
دشت توہمات میں اپنی صدا ہے اور ہم
حسن یقیں کے قافلے کس سے کہیں کدھر گئے
وقت کے قافلے میں جب کوئی نہ ہم سفر ملا
بن کے غبار رہ گزر دشت میں ہم بکھر گئے
غزل
دل میں جنہیں اتارتے دل سے وہی اتر گئے
مغیث الدین فریدی