دل میں اک شور اٹھاتے ہیں چلے جاتے ہیں
آپ جذبات جگاتے ہیں چلے جاتے ہیں
روز جلتا ہے سر شام امیدوں کا چراغ
دامن لیل بجھاتے ہیں چلے جاتے ہیں
وقت رخصت تو قیامت کا سماں ہوتا ہے
غم کو سینے سے لگاتے ہیں چلے جاتے ہیں
ہم تو پھرتے ہیں محبت کا خزانہ لے کر
راہ نفرت میں لٹاتے ہیں چلے جاتے ہیں
چند لمحوں کی رفاقت میں کئی خواب حسیں
لالہ و گل کو دکھاتے ہیں چلے جاتے ہیں
خشک ہونٹوں کو مرے جھوٹا تبسم دے کر
پھر سے آنکھوں کو رلاتے ہیں چلے جاتے ہیں
کون کرتا ہے ادا حق مراسم شمسیؔ
لوگ بس رسم نبھاتے ہیں چلے جاتے ہیں

غزل
دل میں اک شور اٹھاتے ہیں چلے جاتے ہیں
ہدایت اللہ خان شمسی